Hera Mandi movie
ہیرا منڈی: سنجے لیلا بھنسالی کی نئی سیریز پر اہل لاہور کو اتنا غصہ کیوں ہے؟
بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ’ہیرا منڈی-
دی ڈائمنڈ بازار‘ رواں ہفتے ویب سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی ہے
۔ آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی کہانی 1910-1940 کی دہائی میں برطانوی راج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے۔
اس سیریز کی کہانی تقسیم سے قبل اور تحریکِ آزادی کے وقت لاہور کے شاہی محلے ہیرا منڈی میں بسنے والی ایک طوائف ’ملکہ جان‘ اور ان کے کوٹھے کے اردگرد گھومتی ہے۔
اس ان دیکھی جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ انگریز سرکار کا ہوتا ہے جو تحریکِ آزادی کی جدوجہد کے لیے سرگرم مظاہرین سے نمٹنے میں مصروف ہوتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہندوستان میں تحریکِ آزادی زوروں پر ہے اور شاہی محلے کی طوائفیں بھی اس میں سرگرم ہیں۔
عالی شان محلوں،
بیش قیمت فانوسوں سے بھرے دلکش سیٹ،
سونے، چاندی اور نوادرات سے لدی قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیروئنز اور بے مثال کیمرہ ورک اور منیشا کوئرالا کی شاندار اداکاری۔۔۔
اس سیریز میں ملکہ جان شاہی محل (ہیرا منڈی) کی سب سے خوبصورت اور بڑی حویلی کی مالکن ہیں
اور ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں انھیں آپا بلاتی ہے۔
شاہی محل کی مالک بننے کے لیے ملکہ جان نے برسوں پہلے اپنی ہی بڑی بہن (ریحانہ جس کا کردار سنہا کشی نبھا رہی ہیں) کو قتل کر دیا تھا۔
سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ برسوں بعد ریحانہ کی بیٹی فریدن (اس کردار کو بھی سنہا کشی سنھا ہی نبھا رہی ہیں) اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے اور شہاہی محل کی چابیاں ہتھیانے پہنچ جاتی ہے اور بس یہی سے ان دونوں کے بیچ ایک ایک ایسی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جس کی لپیٹ میں ان دونوں سے جڑے کئی مہرے پٹتے ہیں۔
اس سیریز کو معین بیگ نے تحریر کیا اور اس کا سکرین پلے اور ہدایات کاری سنجے لیلا بھنسالی نے دی ہے۔
یاد رہے تقریباً دو سو کروڑ روپے کے بجٹ (انڈین میڈیا کے مطابق) سے بننے والی اس سیریز کو سنجے لیلا بھنسالی اپنا ’ڈریم پراجیکٹ‘ کہتے ہیں اور اس مضمون کی اشاعت تک یہ سٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر اول نمبر پر ہے۔
بھنسالی کے اس ڈریم پروجیکٹ میں منیشا کوئرالہ، سوناکشی سنہا، ادیتی راؤ حیدری، فردین خان، فریدہ جلال، شرمین سیگل اور طہٰ شاہ وغیرہ شامل ہیں۔
مگر اس سب کے باوجود یہ سیریز 1940 میں لاہور کی ہیرا منڈی کی درست شبیہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آٹھ گھنٹے ضائع کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ’مصنوعیت‘ سے بھرپور اس سیریز میں پلاٹ
، سکرپٹ اور ڈائیلاگز کچھ بھی نہیں ہے۔۔
۔ اداکاراؤں کا لہجہ اتنا مصنوعی ہے کہ اس میں تقسیم سے قبل والی ان طوائفوں کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی
جن کے پاس اشرافیہ اپنے بچوں کو آداب، معاشرتی ثقافت اور اردو زبان کا لب و لہجہ سکھانے بھیجتے تھے۔
ادھر اہلِ لاہور کو غصہ ہے کہ ہیرامنڈی کے مکانات میں آپ کوایسا ایک بھی صحن نہیں ملے گا جیسا بھنسالی کے سیٹ پر دکھایا گیاہیرا منڈی: سنجے لیلا بھنسالی کی نئی سیریز پر اہل لاہور کو اتنا غصہ کیوں ہے؟ بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ’ہیرا منڈی- دی ڈائمنڈ بازار‘ رواں ہفتے ویب سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی ہے ۔ آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی کہانی 1910-1940 کی دہائی میں برطانوی راج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے۔ اس سیریز کی کہانی تقسیم سے قبل اور تحریکِ آزادی کے وقت لاہور کے شاہی محلے ہیرا منڈی میں بسنے والی ایک طوائف ’ملکہ جان‘ اور ان کے کوٹھے کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس ان دیکھی جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ انگریز سرکار کا ہوتا ہے جو تحریکِ آزادی کی جدوجہد کے لیے سرگرم مظاہرین سے نمٹنے میں مصروف ہوتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہندوستان میں تحریکِ آزادی زوروں پر ہے اور شاہی محلے کی طوائفیں بھی اس میں سرگرم ہیں۔ عالی شان محلوں، بیش قیمت فانوسوں سے بھرے دلکش سیٹ، سونے، چاندی اور نوادرات سے لدی قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیروئنز اور بے مثال کیمرہ ورک اور منیشا کوئرالا کی شاندار اداکاری۔۔۔ اس سیریز میں ملکہ جان شاہی محل (ہیرا منڈی) کی سب سے خوبصورت اور بڑی حویلی کی مالکن ہیں اور ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں انھیں آپا بلاتی ہے۔ شاہی محل کی مالک بننے کے لیے ملکہ جان نے برسوں پہلے اپنی ہی بڑی بہن (ریحانہ جس کا کردار سنہا کشی نبھا رہی ہیں) کو قتل کر دیا تھا۔ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ برسوں بعد ریحانہ کی بیٹی فریدن (اس کردار کو بھی سنہا کشی سنھا ہی نبھا رہی ہیں) اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے اور شہاہی محل کی چابیاں ہتھیانے پہنچ جاتی ہے اور بس یہی سے ان دونوں کے بیچ ایک ایک ایسی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جس کی لپیٹ میں ان دونوں سے جڑے کئی مہرے پٹتے ہیں۔ اس سیریز کو معین بیگ نے تحریر کیا اور اس کا سکرین پلے اور ہدایات کاری سنجے لیلا بھنسالی نے دی ہے۔ یاد رہے تقریباً دو سو کروڑ روپے کے بجٹ (انڈین میڈیا کے مطابق) سے بننے والی اس سیریز کو سنجے لیلا بھنسالی اپنا ’ڈریم پراجیکٹ‘ کہتے ہیں اور اس مضمون کی اشاعت تک یہ سٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر اول نمبر پر ہے۔ بھنسالی کے اس ڈریم پروجیکٹ میں منیشا کوئرالہ، سوناکشی سنہا، ادیتی راؤ حیدری، فردین خان، فریدہ جلال، شرمین سیگل اور طہٰ شاہ وغیرہ شامل ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود یہ سیریز 1940 میں لاہور کی ہیرا منڈی کی درست شبیہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آٹھ گھنٹے ضائع کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ’مصنوعیت‘ سے بھرپور اس سیریز میں پلاٹ ، سکرپٹ اور ڈائیلاگز کچھ بھی نہیں ہے۔۔ ۔ اداکاراؤں کا لہجہ اتنا مصنوعی ہے کہ اس میں تقسیم سے قبل والی ان طوائفوں کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی جن کے پاس اشرافیہ اپنے بچوں کو آداب، معاشرتی ثقافت اور اردو زبان کا لب و لہجہ سکھانے بھیجتے تھے۔ ادھر اہلِ لاہور کو غصہ ہے کہ ہیرامنڈی کے مکانات میں آپ کوایسا ایک بھی صحن نہیں ملے گا جیسا بھنسالی کے سیٹ پر دکھایا گیا ہے۔۔ ۔ ان صارفین کے مطابق اس محلے میں کثیر المنزلہ پانچ پانچ، دس دس مرلے کے کوٹھے یا مکانات تھے اور جیسی امارت سیریز میں ظاہر کی گئی ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس سیریز پر سب سے زیادہ غصہ اہلِ لاہور کو ہے۔۔۔ صحافی و تجزیہ کار صباحت زکریہ نے لکھا کہ سیریز کی پہلی قسط آدھی دیکھ کر ان کی والدہ کی بس ہو گئی۔ ۔ انھیں شکایت ہے کہ کہ وہ ہیرا منڈی میں رہنے والے کئی ڈاکٹروں، کالج پرنسل کو جانتی تھیں اور انھیں ہیرا منڈی کو محض ایسی جگہ کے طور دکھانے پر اعتراض ہے جہاں صرف طوائفیں رہتی تھیں۔
ہے۔۔
۔ ان صارفین کے مطابق اس محلے میں کثیر المنزلہ پانچ پانچ، دس دس مرلے کے کوٹھے یا مکانات تھے اور جیسی امارت سیریز میں ظاہر کی گئی ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا
۔
اس سیریز پر سب سے زیادہ غصہ اہلِ لاہور کو ہے۔۔۔ صحافی و تجزیہ کار صباحت زکریہ نے لکھا کہ سیریز کی پہلی قسط آدھی دیکھ کر ان کی والدہ کی بس ہو گئی۔
۔ انھیں شکایت ہے کہ کہ وہ ہیرا منڈی میں رہنے والے کئی ڈاکٹروں، کالج پرنسل کو جانتی تھیں اور انھیں ہیرا منڈی کو محض ایسی جگہ کے طور دکھانے پر اعتراض ہے جہاں صرف طوائفیں رہتی تھیں۔
Comments
Post a Comment